Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

یوم تاسیس آزاد کشمیر اور جہدوجہد مسلسل تحریر: شمسہ نزیر کیانی

 قوموں کی تاریخ میں چند ایسے دن آتے ہیں جو ان کی تقدیر بدلنے اور روشن مستقبل کے قیام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کشمیر کرہ ارض پر تقریبا...


 قوموں کی تاریخ میں چند ایسے دن آتے ہیں جو ان کی تقدیر بدلنے اور روشن مستقبل کے قیام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کشمیر کرہ ارض پر تقریبا چار ہزار سال کی قدیم تاریخ رکھنے والا خوب صورت ترین خطہ ہے جسے "ایشیاء کا سویٹزرلینڈ" بھی کہا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ خطہ مختلف ادوار میں غلامی، ظلم و جبر، نا انصافی اور استحصال کا شکار رہا۔ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ آزاد جموں و کشمیر کے نام  سے جانا جاتا ہے۔ 
تقسیم ہند سے قبل برصغیر تقریبا 560 چھوٹی بڑی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ تقسیم ہند فارمولا کے تحت ان ریاستوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر خطے کی سب سی بڑی ریاست تھی۔ یہ واحد ریاست تھی جس کی اپنی آئین ساز اسمبلی تھی۔ اور اسے دوسری ریاستوں پر فوقیت حاصل تھی۔ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ پاکستان کے ساتھ قدیم مزہبی، اقتصادی اور مواصلاتی تعلق کی بدولت کشمیری عوام کی شدید خواہش تھی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھہ ہو۔ مگر اس وقت کے وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ مل کر تقسیم ہند کے فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔ کشمیری عوام مہاراجہ کی اس بد دیانتی پر سیخ پا ہوئے اور انھوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ تحریک آزادی کے رہنما اس وقت کے ایک نڈر نوجوان سردار محمد ابراہیم خان تھے۔ انھوں نے جون 1947 میں پوری ریاست کا دودہ کر کے کشمیریوں کو یک جان کیا اور انھیں عملی طور پر مزاحمت کے لیے تیار کیا۔ چنانچہ کشمیری عوام کی انتھک کوششوں اور لاکھوں قربانیوں کی بدولت پانچ ہزار مربع میل پر مشتمل علاقہ بھارت کے قبضہ سے آزاد ہوا۔ جہاد آزادی کو قوت پہنچانے، عوامی شعور کو بیدار کرنے اور بین القوامی تائید کو حاصل کرنے کے لیے 24 اکتوبر 1947 کو آزاد جموں و کشمیر کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے بانی صدر، غازی ملت سردار ابراہیم خان منتخب ہوئے۔ آزاد جموں و کشمیر پوری ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کے انعقاد کے نتیجے میں ریاست کی تکمیل آزادی اور الحاق پاکستان کے مقصد کے حصول کے لیے ایک عبوری حکومت کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس اعتبار سے آزاد کشمیر تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے جس کا ہر دن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جہدوجہد آزادی اور خطہ کے ساتھ تعاون کا غماز ہے۔
 حق خوداریت کے حصول کے لیے آزاد کشمیر میں ہر سال یہ دن "یوم تاسیس" کے نام سے منایا جاتا ہے۔ 24 اکتوبر کی صبح آزادی کا آغاز مساجد میں کشمیر کی آزادی کے لیے دعاؤں سے کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جہدوجہد آزادی میں شامل شہدائے کشمیرکو توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ اس دن آزادی کی راہ میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں جلسے جلوس اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ خصوصا دارالحکومت مظفرآباد دھڑکتے دل کی طرح قوم کی رگوں میں آزادی کی امنگ کو ابھارتا ہے۔
کشمیریوں کی جہدوجہد آزادی آج بھی جاری و ساری ہے۔ لاکھوں کشمیری تحریک آزادی کو اپنے لہو سے سیراب کر چکے۔ بھارت نے عملی طور پر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنا رکھا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو نظر بند کرنے، عورتوں کی عصمتیں لوٹنے اور انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹنے میں مصروف عمل ہے۔ بھارت اپنے تمام تر مظالم آزما چکا لیکن وہ کشمیری عوام کے جزبہ حریت میں کمی نہ لا سکا اور نہ آئندہ لا سکے گا۔ 
کشمیری عوام کا یہ موقوف ہے کہ وہ بھارت سے ہر سو آزادی لے کر رہیں گے اور الحاق پاکستان کی تکمیل حاصل کر کے اپنے شہداء کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ آج 74 سال بیت جانے پر بھی ایک کروڑ پچیس لاکھ کشمیری، بیس لاکھ بے گھر مہاجرین اور پندرہ لاکھ سے زائد تارکین وطن ہر روز ہندوستانی حکمرانوں کے ضمیر پر دستک دیتے ہوئے عالمی برادری سے کیے گئے وعدے یاد دلاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستانی حکمران بے حمیتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ 
یوم تاسیس ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ پنجہ باظل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صبح آزادی کی منزل کی طرف رواں دواں قافلے میں شامل ہوں۔ جہدوجہد آزادی میں برسرپیکار کشمیری عوام کی آواز کو بین القوامی سطح پر اجاگر کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کر دیں۔ جزبہ حب الوطنی سے سرشار، بہادر اور غیور کشمیری قوم کا جزبہ قابل تحسین ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تقویت حاصل کر رہا ہے۔ اور یہ جزبہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیری عوام کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور سرینگر میں بھی آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ (انشاء اللہ)

کوئی تبصرے نہیں